سانحہ ہزاره ٹاون اور اجتماعی بے حسی

سانحہ ہزاره ٹاون اور اجتماعی بےحسی کئی دن سے میں سوشل میڈیا پر سانحہ ہزاره ٹاون جو 16 فروری 2013 کو رونما ہوا تھا ، کے حوالے سےتصویریں دیکھ رہا ہوں۔ یہ کسی ایکشن فلم کی تصویریں نہیں جہاں ہر طرف آگ ہی آگ نظر آرہی ہے۔ نہ ہی یہ کسی ایسی ناکام ریاست کی تصویر ہے جہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں اور جہاں ہر روز یہ قوم اپنے جوانوں کے جنازے اٹھاتی ہے ۔ یہ کسی میدان جنگ کی تصویریں بھی نہیں جہاں دو ملک آپس میں لڑرہے ہیں اور جہاں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے لئے اجتماعی قبریں کھودی گئی ہیں ۔ بلکہ یہ اس واقعے کی تصاویر ہیں جو ایک ایسی مظلوم اور پڑھی لکھی قوم سے متعلق ہے جو سالہا سال سے کوئٹہ میں زندگی گزار رہی ہے ۔ جن کی تعداد ملک کی آبادی کا بمشکل %0.4 ہیں لیکن ہر میدان میں اس دھرتی کے لیے اس قوم کی قربانی %5.4 ہیں۔
 .
یہ واقعہ ایک ایسے ملک میں رونماء ہوا جہاں جمہوری حکومت بھی ہے اور ریاستی ادارے بھی ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہزار کلوگرام جدید دھماکہ خیز مواد سی فور کا استعمال ہو اور حکومت اور ریاستی ادارے اسے روکنے میں ناکام رہیں؟ جس میں کئی سکولز, مارکیٹیں, اور مکانات تباه ہوئے اور تقریبا 130 کے قریب لوگ شہید ہوئے جن میں سکول کے چھوٹے اور معصوم بچے ,بچیاں بھی شامل تھے ۔
  .
“یه جملہ لکھنے سے پہلے جزباتی انداز میں میرے آنسو نکل آئے اور میں یہ سوچ کر بے ساخته رو پڑا کہ اس ملک میں اتنے لوگ پولیو سے معزور نہیں ہوئے ہونگے,جتنے ہمارے جوان اور معصوم بچے, بچیاں ان 16سالوں میں گولیوں اور بارود سے اپاہج ہوئی ہیں،جن کا کوئی پرسان حال نہیں ، بہت سارے ایسے بھی ہیں جو کل تک اپنے گھرکے کفیل تھے لیکن آج ایک اذیت ناک زندگی گزانے پر مجبور ہیں” ۔
ایسے میں جناب مولانا فیصل رضا عابدی صاحب
Faisal Raza Abidi - Lifestan
کسی کے کہنے پر انہی مذہبی جذباتی نعروں کے ساتھ اس سال پھر ہزاره ٹاون آرہاہے۔ یہ وہی شخص ہے جو پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور میں جب اس قوم پر بدترین ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے ، صدارتی محل میں پرآسائش زندگی کے مزے لوٹ رہا تھا ۔ تب تو یہ بالکل خاموش رہا تھا جب انہی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلی نے ، اپنے پیاروں کی لاشوں پر روتے ہوئے ہزارہ بچوں اور خواتین کا مزاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ” میں ان کے لئے ایک ٹرک ٹشو پیپر بھیج دونگا تاکہ وہ اپنے آنسو پونچھ سکیں” ۔ سوال یہ ہےکہ کیا ان سب واقعات کے بعد بھی ہم نے کوئی سبق حاصل کیا ؟ حقیقت یہی ہے کہ بالکل بھی نہیں,کیوں کہ اس معاشرے کو جتنا ہماری خودغرضی اور بے حسی نے نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی اور نے نہیں پہنچایا۔
.
سوال یہ بھی ہے پشاور سکول اور سانحہ صفورا کے افسوسناک واقعات کے تمام مجرموں اور سہولت کاروں کو تو کیفرکرار تک پہنچایا جا چکا ہے لیکن کیا آج تک ہزارہ قوم پر کئے جانے والے بدترین مظالم اور ان کے خلاف ہونے کسی ایک بھی واقعہ کے مجرم کو پکڑ کر سزا دی گئی ہے ؟ جواب یقینا ناں میں ہے جبکہ آنے والے وقتوں میں بھی ہمیں اس بات کی کوئی امید نہیں کہ ہمارے قاتلوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ۔
Subscribe to our Newsletter
Sign up here to get the latest news, updates and special offers delivered directly to your inbox.
You can unsubscribe at any time

Leave A Reply

Your email address will not be published.