کویٹہ میں ہزارہ معاشرہ کو درپیش نیے چیلنجز

اگر کوئی معاشره مذہبی طور پر ذیاده سرگرم ہو تو نہ صرف کالعدم تنظیموں بلکہ خفیہ ادراروں کی بھی نظر میں رہتا ہے۔ پچھلے کیی سالوں سے یہی صورت حال پاکستان میں خاص کر پاره چنار اور کوئٹہ کا رہا ہے جہاں کے باسیوں کے مذہبی جذبات کو خوب ابھارا گیا اور ضیاء الحق کے دور سے پاره چنار کے لوگوں سے جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس سے ہم سب بخوبی آگاه ہیں کہ طرح أن پر لشکر کشی کی گئی_ اسی طرح کوئٹہ کے حالات بھی اس سے زیاده مختلف نہیں ہے۔ آگ بھلے کہی بھی لگے لیکن اسکا دھواں ہمیشہ ہمارے گھروں سے ہی اٹھتا رہا ہے یعنی ماضی میں بھی جہاں کوئی مسلہ ہوتا یہاں کے لوگوں کو باہر نکال کر گولی کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا اور یہی سلسلہ ابھی تک جاری ہے_میری نظر میں ان دونوں علاقوں کی محصور ہونے کی وجہ بھی یہی ہے _

کچھ سال پہلے ایک اعلی شخصیت نے یہ کہا تھا کہ آپ کے تمام امام بارگاه ایرانی قونصل خانہ بن گئے ہیں۔ اس بات پر ہم نے کوئی توجہ نہیں دی جسکے نتیجے میں، ہزاروں قربانیوں کے باوجود، ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور آج تک اسی کی ہی سزا کاٹ رہے ہیں_

اب کچھ کاروباری حضرات نے عقیدے کے نام پر اپنے مفادات کی خاطر امام بارگاہوں اور گلی کوچوں کو باہر سے آنے والے زائرین کی پناه گاه بنا دیا ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان لوگوں کی سرکاری طور پر رہایش کا بندوبست کیا جاتا اب تو چیک پوسٹوں پر ہر کوئی اپنے آپ کو زائرین کہہ کر بغیر کسی تلاشی کے اندر آسکتے ہیں_

میری نظر میں عقیدے کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے_چونکہ شام اور عراق کی جنگ کی وجہ سے لوگوں کو زہنی طور پر تیار کرنا ہے اس وجہ سے کچھ سالوں میں خصوصا وه معاشرے جو ہماری طرح خوش فہم اور خوش باور ہے ان کےلیے آسان ہدف ہے_ اہم بات یہ بھی ہے کہ اتنے سارے خدمت کے باوجود بھی پاکستان کے شیعہ حضرات شیعہ کانفرنس کے رویے سے شدید ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں اور اس بات کی معقول وجہ بھی ہے فارسی میں مثال ہے( نان خو ام بیدی نام خو ام ) اب روز یہاں دھرنے اور مظاھرےہورہے ہیں جس کی وجہ سے سب تکلیف میں ہیں_ مولا علی علیه سلام کا قول ہے کہ خیرات اپنے گھر سے شروع کرو اسی لیے ہمیں اپنے معاشرے کےضررورت مندوں اور یتیموں کا سہارا بن کر اپنے معاشرے کی تعمیر پر توجہ دینا ہوگا تاکہ پھر سے تعلیم اور کھیل کے میدان میں ہے ہم سرخرو ہو_

بدقسمتی سے یہاں جس کا جو دل چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔ ہمیشہ سےکسی نا کسی نے معاشرے کے اجتماعی مفادات کو اپنے ذاتی مفادات کےلیے قربان کیا ہے_ کیونکہ لوگوں کو چھپ کر سہنے کی عادت جو ہو گئی ہے اس لیے کسی نےمحلے والوں کی راۓ کو بھی اہمیت نہیں دی اور نا ہی یہاں کی بہتری کے لیے کام کرنے والے دوسرے سیاسی اور فلاحی اداروں کو اعتماد میں لیا گیا ہے_ سوال یہ ہے کہ پورے پاکستان سے زائرین کو جمع کرکے ہزاره نشین علاقوں میں کیوں ٹھرایا جا رہا ہے_ سوال یہ بھی ہے کہ اگر کل کو خدا نخواستہ یہی مہمان داری ہمارے لیے سیکورٹی رسک بن گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

میرے مطابق پھر سے ایک سازش کے تحت معاشرے کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اس لیے ہمیں جزبات سے نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر اپنے اجتماجی مفادات کےلیے سوچھنا ہوگا یہ اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ ماضی کی کچھ تجربات ہمارے لیے زہر قاتل ثابت ہو چکی ہے.

Subscribe to our Newsletter
Sign up here to get the latest news, updates and special offers delivered directly to your inbox.
You can unsubscribe at any time
2 Comments
  1. […] کویٹہ میں ہزارہ معاشرہ کو درپیش نیے چیلنجز […]

  2. Icecream says

    Ebrahim brother, may be you are right about the chup ke sehne ki adat ho gayi hai, but I hope it doesn’t matter if I have a different view. A lot of people do not give a damn, some are running away, and most of them, being shia muslim, are not allowed to fight on personal basis so are awaiting the government to respond and provide security.
    I mean if you don’t even have the power to know who those killers are, you probably don’t have the potential to fight back. And if you don’t have the potential to fight back, but you still wanna fight, else than disturbing the So-called-Peace, you will not be doing anything good. Not to yourself, neither to your people.

Leave A Reply

Your email address will not be published.