کویٹہ میں ھزارہ معاشرہ کو درپیش نیے چیلنجز دوسرااور آخری حصّہ

     کویٹہ میں ھزارہ معاشرہ کو درپیش نیے چیلنجز (دوسرااور آخری حصّہ)

جسطرح اس سے پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ ملک بھر سے آے ہوے زایرین کا کویٹہ میں ھزارہ نشین علاقوں میں قیام کسی بڑی آفت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ گوں کہ انکا قیام ہمارے علاقوں میں عارضی ہوتا ہے مگر مقامی آبادی کو ہر قسم کے جانی نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں سعی کرنی ہوگی۔

ہم ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جنہوں نے ایسا آرمی چیف اس ملک کو دیا جنکی قیادت میں پاکستان کی فوج نے 1965ء کے تاریخی معرکہ میں دشمن کو ناکوں چنے چبوانے پر مجبور کیا۔ علم، کھیل اور ہنر کو نیی بلندیوں پر پہنچایا۔ غرض زندگی کے ہر شعبے میں ایک سے بڑھ کر ایک سپوت پیدا کیے جنکی صلاحیتوں کی عالمی سطح پر پزیرایی ہونے لگی مگرچونکہ اس بدبخت اسٹیبلشمنٹ کو ایسے عناصر کی ضرورت رہی ہیں جو انکے پٹھّو بن کر ملک میں فرقہ ورانہ وارداتوں کے ذریعے عام اور معصوم لوگوں کا قتل عام کریں اور دہشت گردی کی آذادانہ کارواییاں کرتے پھرے۔ اسی لیے توانہیں اسٹریٹجک اثاثہ کا نام دیا جاتاہے۔ اس لیے اپنی حفاظت کا بروقت اور مکمل انتظام عین ضروری ہے۔

جی ہاں، اس بات کی ضرورت اس وجہ سے پیش آیی کہ ہمیں، کم از کم، ھزارہ نشین علاقوں میں ہر اس چیز پر نظر رکھنے اور عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے جنمیں کوتاہی کی وجہ سے معصوم اور بے گناہ لوگوں کے نقصان کا اندیشہ موجود ہوں۔

کہتے ہیں کہ سانپ کا ڈسا ہوا رسّی کے بل سے بھی ڈرنے لگتا ہے۔ اسی طرح ہمیں ہر اس چیز کے بارے میں منصوبہ بندی کرتے ہوے ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے جن سے حالات تسلّی بخش ہونے کا ثبوت ملے۔

زایرین کے علاوہ، ایک اور غور طلب بات یہ بھی ہے کہ گلستان ٹاون کے علاقہ میں کچھ غیر ھزارہ کرایے کے مکانوں میں آکر آباد ہونا شروع ہو گیے ہیں جنمیں ہندو بھی شامل ہیں۔ اچنبھنے کی بات اس وجہ سے ہے کہ سینٹ کو حالیہ بریفنگ میں یہ بتایا گیا تھا کہ بلوچستان میں دنیا کی 31 خفیہ ادارے حالات خراب کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور دہشت گردی پھیلانے کے لیے اپنے اپنے گروپوں کی فنڈنگ کر رہے ہیں لہذا، یہ غیر ھزارہ کہاں سے آے ہیں اور تیس لاکھ آبادی رکھنے والے کویٹہ میں کیونکر ہمارےعلاقے کا انتخاب کیا گیا ہے یا انکی علاقہ اور اس سے باہر کن قسم کی سرگرمیاں ہیں؟ یہ سب ایسے سوالات ہیں جن سے مقامی آبادی میں کافی تشویش پایی جاتی ہیں۔ غیر ھزارہ لوگوں کے مقامی آبادی میں رہنے سے ایک بڑی ذہنی الجھن یہ بھی رہتی ہے کہ معلوم نہیں ھزارہ معاشرہ کی کمزوریوں اور باریکیوں سے متعلّق کس قسم کی معلومات کہاں کہاں پہنچایی جاتی ہیں۔ ممکن ہے کہ ھزارہ قوم کو ان غیر ھزارہ کے یہاں بسنے سے فی الحال کویی خطرہ نا بھی ہوں لیکن ایک منصوبے کے تحت اگر انکی دی گیی معلومات پر آیندہ کچھ سالوں میں کاروایی ہویی یا انکے علاقہ چھو‌ڑنے کے بعد ان پر عمل کروایا گیا تو ان سب کا ذمہ دار کون ہوگا؟

میں یہ سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کےموجودہ دیگر گوں حالات کے پیش نظر ہم اس کے قطّعی تحمّل نہیں ہو سکتے کہ کويي غیر ھزارہ ہمارے علاقے میں رہنا شروع کریں اور ہم ‘سب اچھّا ہیں’ کے تحت انکو رہنے کی اجازت بھی دے۔

کیونکہ غیر ھزارہ لوگوں کو مکانات کرایہ پر دینے والے شاید یہاں سے ہزاروں میل دور آسٹریلیا یا یورپ کے کسی ملک میں بنا خوف و خطر آرام دہ زندگی گزار رہے ہونگے اور اگر خدا نخواستہ کل کویی بڑا انسانی حادثہ رونماء ہوتا ہے تو اس سے مقامی لوگ ہی متاثر ہونگے۔ مالک مکان کوتو بال بھی بھیکا نا ہوگا۔

غیر ھزارہ، مثلا ہندو وغیرہ کے ہمارے علاقہ میں رہنے سے اس وجہ سے بھی تشویش موجود ہیں کیونکہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے کلبھوشن یادو کی صورت میں، انڈین آرمی کے حاضر سروس افیسر کی گرفتاری عمل میں لایی جا چکی ہے اور جواپنے اعترافی بیان میں یہ کہتے ہوے سنے جا سکتے ہیں کہ انکا تعلّق ایسی گروہوں سے رہا ہے جو بلوچستان میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔

اس اہم مسلہ کے علاوہ، ملک بھر سے آے ہوے زایرین سے متعلّق بھی مسلسل بے چینی پایی جاتی ہے کیونکہ پاکستانی خفیہ اداروں کی حالیہ رپورٹس کے مطابق، ایسے دہشت گردوں کا سراغ لگایا گیا ہے جو زایرین کی آڈ میں زیارات مقدّسہ کے لیے جانے والے قافلوں کے ساتھ عراق اور شام میں داعش کےلیے لڑنے پہنچ چکے ہیں۔ اور جیسا کہ پچھلے کالم میں بھی اس بات کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ ان زایرین کے ساتھ، اہل سنت بھایی بھی اچھی تعداد میں آکر ہمارے علاقوں میں ٹھہرتے ہیں جن سے اس بات کو اور تقویت ملتی ہے کہ کیوں نا ہم اپنی بھرپور حفاظت کی ذمہ داری اٹھاے۔ ھزارہ قوم مہمان نوازی اور فراغ دلی میں اپنی مثال آپ ہیں مگرچونکہ ہمارے کافی ناتلافی نقصانات ہو چکے ہیں لہذا، مکمل اور تسلّی بخش حفاظتی اقدامات کے علاوہ، ہمارے پاس کویی دوسرا راستہ موجود نہیں۔ چونکہ زایرین کے قیام و طعام کی ذمہ داری مجلس وحدت المسلمین اور شیعہ کانفرنس جیسے تنظیموں کی ہیں اور ہمارے جوان جذبہ ایمانی سے یہ فرایض انجام دیتے رہے ہیں لہذا، انہیں چاہیے کہ پاکستان بھر سے آنے والے زایرین کے سامان کی مکمل تلاشی کا ذمہ اٹھاے تاکہ حفاظتی اقدامات سے لوگ سکون کا سانس لے۔

کویٹہ میں ہزارہ معاشرہ کو درپیش نیے چیلنجز

Subscribe to our Newsletter
Sign up here to get the latest news, updates and special offers delivered directly to your inbox.
You can unsubscribe at any time
2 Comments
  1. Ali Hassan says

    Nice and informative post keep it up.

Leave A Reply

Your email address will not be published.